Thursday, November 26, 2009

بیدار لمحوں کا اک جزیرہ ۔ طیبہ خلیل

عزیز ساتھی
اس وقت کے سمندر میں بہتے بہتے
اگر کبھی جو اس کی لہریں
بیدار لمحوں کے اک جزیرے پر
تم کو اتار دیں تو
ذرا ٹھرنا، ذرا سنبھلنا
ذات اپنی سمیٹ کر
لمحہ بھر کو
دل کی آنکھوں کو کھول لینا
تو اک اجالا
جو تمھاری آمد کا منتظر
ہے
وہ اپنی ذد میں تم کو لپیٹ لے گا
تمھارے اندر کا سب اندھیرا سمیٹ لے گا
تمہیں لگے گا کہ بیتے لمحوں کے
سراب سارے تو عارضی تھے
گلاب سارے تو کاغذی تھے
اس روشنی کے بجھنے سے پہلے
لمحہ بھر کو ذات اپنی
اس میں دیکھ لینا
کہ یہ روشنی جو بجھ گئ تو
پھر کبھی نہ پا سکو گے
بیدار لمحوں کی روشنی میں
اگر ندامت سے تمھاری آنکھیں
چھلک پڑیں تو
اپنی آنکھوں سے گرنے والا
ایک ایک آنسو سمیٹ لینا
اسے اپنے دل پر لپیٹ لینا
خیال رکھنا کہ
وقت کی لہروں میں بہتے بہتے
تمھارے آنسو کہیں کھو نہ جائیں
مجھے یقیں ہے تمھارے آنسو
تمہیں کبھی ڈوبنے نہ دیں گے
تمہیں کبھی ڈوبنے نہ دیں گے

No comments:

Post a Comment