Sunday, November 8, 2009

رات اک زلزلہ جو آیا تھا۔ طیبہ خلیل

رات اک زلزلہ جو آیا تھا
ساتھ اپنے کتنا ہی خوف لایا تھا
گہری نیند سونے والوں کو
جس نے اک آن میں جگایا تھا
زندگی سے پیار کرنے والوں کو
یکد م سے موت کا خیال آیا تھا
اک عجب خوفناک آواز نے جب
سبک رفتار دھڑکنوں کو دوڑایا تھا
بے یقینی سے دیکھتے تھے سائباں کی طرف
دھوپ سردی سے جس نے انھیں بچایا تھا
کھل گئی اس گھر کی حقیقت ان پر
جس کی محبت نے راہ سے ہٹایا تھا
یہ زباں جس رب کے زکر سے غافل تھی
پھر لبوں پر اس کا ہی نام آیا تھا
پھر چند لمحوں بعد جب وہ بھونچال تھما
جس نے غافل ضمیر کو چونکایا تھا
تو اس رب کے شکر گزار ہوئے
جس نے اس آفت سے انھیں بچایا تھا
مگر یہ سوچے بغیر پھر سو گئے
کہ یہ زلزلہ کیوں آیا تھا
کیوں مہرباں رب نے اپنے بندوں کو
اک میٹھی نیند سے جگایا تھا
مگر جواب اس کا تب ہی پائیں گے
جب اک زلزلہ دلوں میں آئے گا
جب یہ خوف دل میں ہر پل سمائے گا
کہ اک زلزلہ پھر یہاں نہ آجائے
اور ساتھ اپنے کچھ لاشوں کو
خالی ہاتھ وہاں نہ لے جائے

No comments:

Post a Comment